واتین اور جوانوں میں دینی بیداری ای
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وصایا میں لکھا ہے کہ دو شنبہ کو جماع کرنے سے فرزند قاری پیدا ہوتا ہے۔ اور سہ شنبہ کی رات میں جماع کرنے سے سخی ، اور پنچ شنبہ کی رات میں جماع کرنے سے عالم اور متقی پیدا ہوتا ہے ۔ اور پنج شنبہ کے دن دوپہر سے پہلے جماع کرنے سے عالم اور حکیم پیدا ہوتا ہے اور شیطان اس سے بھاگتا ہے۔ اور جمعہ کے دن نماز جمعہ سے پہلے جماع کرنے سے فرزند سعید ہوتا ہے اور شہادت پر موت ہوتی ہے ۔ اور جمعہ کی رات میں صحبت کرنے سے فرزند مخلص پیدا ہوتا ہے۔
اور جب صحبت سے فارغ ہو تو عورت سے جلد جدا نہ ہو؛ بلکہ اتنی دیر توقف کرے کہ عورت بھی فارغ ہوجائے، ورنہ عورت دشمن ہوجائے گی۔
پھر جب دونوں فراغت پاچکیں، تو دونوں علاحدہ کپڑوں سے اپنے اندام کو پاک صاف کریں۔ دونوں کا ایک ہی کپڑے سے صاف کرنے میں جدائی کا خوف ہے ۔ اور وطی کے بعد مرد پیشاب ضرور کرلیں، ورنہ درد لادوا عارض ہوگا۔ اور عضو تناسل کو نیم گرم پانی سے دھونے سے بدن کو صحیح اور آفات سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اگر نیم گرم نہ ہو، تو تھوڑی دیر کے بعد سرد پانی سے دھونے میں کچھ حرج نہیں۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ اور پچھلی اور درمیان کی رات میں صحبت کرنا مکرو ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان راتوں میں شیاطین حاضر ہوکر مباشرت میں شریک ہوتے ہیں ۔ (رفاہ المسلمین)
اور مباشرت کی حالت میں زیادہ باتیں نہ کریں کہ اولاد گونگی پیدا ہوتی ہے۔
نگاہ بر عورات
حتیٰ المقدور ایک دوسرے کی شرم گاہ کو نہ دیکھیں، اگر چہ دیکھنا جائز ہے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں
مَا رَأیْتُ مِنْہُ وَ لَا أرَیٰ مِنِّیْ
نہ میں نے حضور کی شرم گاہ دیکھی اور نہ حضور نے میری دیکھی۔
ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ
مَا رَأیْتُ فَرْجَ رَسُوْلِ الْلّٰہِ ﷺ قَطُّ۔
میں نے رسول اللہ ﷺ کی شرم گاہ کبھی نہیں دیکھی۔
اور ہدایہ میں ہے کہ بہتر یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی کسی کی شرم گاہ کو نہ دیکھے ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: تم میں سے جوکوئی اپنی عورت کے پاس آئے، تو جہاں تک ممکن ہو پردہ ڈالے اور اونٹ کی طرح بالکل نن گا نہ ہوجائے۔
اور یہ بھی حدیث میں آتا ہے کہ یہ نسیان پیدا کرتا ہے ۔ (رد محتار)
لیکن دیکھنا جائز ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
اِحْفَظْ عَوْرَتَکَ الَّا مِنْ زَوْجَتِکَ۔
(ترمذی، ابن ماجہ، ابو داود)
اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو، مگر اپنی بیوی سے ، یعنی میاں بیوی میں کوئی پردہ نہیں۔
درمختار میں ہے کہ مرد اپنی بیوی کی شرم گاہ کی طرف شہوت اور بغیر شہوت کے ساتھ دیکھ سکتا ہے ، مگر بہتر یہ ہے کہ نہ دیکھے ، اس لیے کہ نسیان پیدا کرتا ہے۔
تارتارخانیہ میں ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مرد اپنی عورت کی شرم گاہ کو شہوت برانگیختہ کرنے کے لیے ہاتھ لگائے ، یا عورت اپنے مرد کی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے۔
اور کفایہ شعبی میں لکھا ہے کہ جس عورت کی دونوں راہیں ایک ہوجائیں، تو ان سے جماع کرنا جائز نہیں ؛ البتہ اگر خاوند کو یہ معلوم ہوجائے کہ جماع قبل( فرج) میں ہوگا تو درست ہے۔
نوعیت جماع
یوں تو فرج کے اندر ہر طرح سے جماع کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
نِسَاؤُکُمْ حَرْثُ لَّکُمْ فَأتُوْا حَرْثَکُمْ أنّیٰ شِءْتُمْ
( البقرۃ، آیۃ:۲۲۳ )
تمھاری بیویاں تمھارے لیے کھیت کی مانند ہیں، پس تم اپنے کھیت میں جس طرح چاہو آؤ۔
مگر بے ضرر وہی طریقہ ہے جس کا عام رواج ہے۔ دوسرے طریقوں میں کچھ نہ کچھ ضرر ضرور ہے۔ اور مناسب یہ ہے کہ شروع رات میں جماع نہ کرے ؛ بلکہ باوضو سوئے اور اٹھ کر صحبت کرے ، اس لیے کہ باوضو سونے میں بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص باوضو سوئے اور اسی رات میں مرے تو درجہ شہادت کا پائے۔
صحبت میں اعتدال
ز اندازہ پیروں مرو پیش زن
نہ دیوانۂ خویشتن را مزن
خزانہ جلالی میں لکھا ہے کہ جماع حلال تصفیہ دل ہے ، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے یہ کام کیا ہے اور غم اور وسوسہ کو دور کرتا ہے۔ غصہ کو ساکن کرتا ہے۔ گرمی سے پیدا ہونے والے زخموں کو مفید ہے، لیکن بدن افزودگی کو کمزور کرتا ہے۔
حالت حی ض و نفاس میں صحبت
حی ض ونفاس کی حالت میں عورت سے صحبت کرنا حر ا م ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
فَاْعْتَزِلُوْ النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ ( البقرۃ، آیۃ۲۲۲)
حی ض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے حائضہ سے صحبت کی، یا عورت کی دبر (پاخانہ کے مقام) میں آیا، یا کسی کا ہن کے پاس آیا، تو جو کچھ محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے ، اس نے اس کا انکار کیا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نفاس والی عورتیں چالیس دن تک انتظار کرے، مگر یہ کہ اس سے پہلے پاکی دیکھے ۔ اگر چالیس روز پہنچنے پر بھی خو ن بند نہ ہو، تو پھر غسل کرے اور وہ مستحاضہ کی مانند ہوگی ۔(ابن عدی و ابن عساکر)
یعنی نفاس والی عورت حالت نفاس میں نماز ، روزہ چھوڑ دے ۔شوہر اس سے ہمبستر نہ ہو۔ اگر چالیس روز کے اندر ہی خو ن بند ہوجائے، تو عورت غسل کرے ۔ اب اس کے لیے نماز و روزہ اور صحبت سب جائز ہے ۔ اور اگر چالیس روز گذر جانے پر بھی خو ن بند نہ ہو، تو وہ غسل کرے۔ اور مستحاضہ کی طرح وہ نماز و روزہ ادا کرے۔ اور مرد اس سے ہمبستر ہو۔
ولیمہ
ولیمہ کرنا سنت ہے۔آں حضرت ﷺ کے قول و فعل سے ولیمہ کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أوْلِمْ وَلَوْ بِشأۃٍ (متفق علیہ)
ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری سے ہو۔
خود رسول اللہ ﷺ نے ولیمہ کیا۔ اور جس موقع پر جیسا میسر ہوا، اسی طرح کا ولیمہ کیا۔ حضرت زینبؓ کے ولیمہ میں لوگوں کو آسودہ کرکے گوشت روٹی کھلائی۔(بخاری)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں ستو اور کھجور کھلایا۔(احمد، ترمذی) ۔ بعض بیویوں کا ولیمہ دو مد جو سے کیا۔
عالمگیری میں ہے کہ شادی کا ولیمہ سنت ہے اور اس میں بڑا ثواب ہے۔ اور ولیمہ یہ ہے کہ جب عورت سے پہلی مرتبہ قربت حاصل کرے، تو اس کے بعد پڑوسیوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کی دعوت کرے ۔ اور کھانا تیار کرے اور سب کو کھلائے۔
اور عین العلم میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ کے قول و فعل سے ولیمہ کرنا ثابت ہے ، چاہیے کہ نکاح کے بعد پہلے ہی دن ولیمہ کرے اور اگر دوسرے دن ہو تو وہ بھی درست ہے، لیکن تیسرے دن ریا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اول روز کا طعام حق ہے اور دوسرے دن کا سنت اور تیسرے دن کا ریا ۔ اور جو شخص ریا کاری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ریاکاری کی سزا دے گا۔ (ترمذی)
اور رزین العرب نے مشکوٰۃ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد مسنون ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نکاح کے وقت اور بعض کے نزدیک دونوں وقت مسنون ہے ۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے یا نکاح کے بعد ادائے شکر کے طور پر تیار کیا جائے۔
لیکن ایسا ولیمہ کہ مال داروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے، سب سے بد ترین ولیمہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: بد ترین طعام وہ طعام ولیمہ ہے ، جس میں مال داروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اور جس نے دعوت قبول نہ کی ، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ (بخاری و مسلم)
دعوت ولیمہ
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے ۔ اور رد محتار میں ہے کہ واجب کے قریب ہے۔ اور رحمۃ الامہ میں ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مستحب ہے ۔ اور امام مالکؒ کے نزدیک واجب ہے ۔ اور امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا ایک قول وجوب کا ہے ۔ اور بنایہ میں ہے کہ دعوت کا قبول کرنا سنت ہے ، اگر قبول نہ کرے گا تو گناہ گار ہوگا ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
مَنْ تَرَکَ الدَّعْوَۃَ، فَقَدْ عَصٰی الْلّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ
(بخاری و مسلم)
جس نے دعوت قبول نہ کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
لیکن دعوت میں شرکت اس وقت درست ہے ، جب کہ وہ مجلس منکرات سے خالی ہو، نہ گانا باجا ہو، نہ ریڈیو، مونوگرام ہو، نہ ڈھول و تاشا ہو، نہ کوئی دوسری چیز شریعت کے خلاف وہاں ہورہی ہو۔ اگر وہاں کوئی چیز شریعت کے خلاف ہو تو ہر گز دعوت میں شریک نہ ہو۔ شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ اگر پہلے سے یہ معلوم ہو کہ وہاں شریعت کے خلاف چیزیں جمع ہیں، تو وہاں ہرگز کھانے کے لیے نہ جائے ۔ جان بوجھ کر ایسی جگہ جانا گناہ ہے ۔ اور اگر پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں شریعت کے خلاف ہورہا ہے ، تو اگر وہ مقتدا ہے، یعنی لوگ اس کی باتوں کو سند پکڑتے ہیں اور شریعت کے بارے میں اس کی پیروی کرتے ہیں، تو اس پر لازم ہے کہ اس خلاف شرع چیز کو اپنے ہاتھ سے دور کرے، یا زبان سے منع کرکے دور کرے ۔ پھر وہاں بیٹھے۔ لیکن اگر وہ مقتدا نہیں ہے، لوگ اس کی باتوں کو سند نہیں پکڑتے ہیں اور اس کے روکنے پر وہ قدرت بھی نہیں رکھتا ہے، تو دل سے برا جانے اور ناچاری کو مجبوراً کھالے۔ عامی کو بدعت کی وجہ سے سنت کا چھوڑنا اولیٰ نہیں۔
لیکن اس عامی پر واجب ہے کہ ایسے مقام پر حاضر ہونے کو دل سے برا جانے۔ اگر خوشی سے اس مجلس میں بیٹھے گا اور دل سے اس فعل بد کو برا نہ سمجھے گا، تو اس کے ایمان برباد ہونے کا ڈر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرَاً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ، فَبِلِسَانِہِ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ،فَبِقَلْبِہِ، ذالِکَ أضْعَفُ الْایْمَانِ۔
(رواہ مسلم)
تم سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے مٹانا چاہیے ۔ اگر کوئی اس کی طاقت نہ رکھتا ہو،تو زبان سے مٹانا چاہیے ۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو، تو دل سے برا سمجھنا چاہیے۔ اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔
ناجائز دعوت
کچھ لوگ ایسے ہیں ، جن کی دعوت قبول کرنا درست نہیں، جیسے فاسق کی دعوت، شہرت چاہنے والے کی دعوت، مال کا اکثر یا کل حصہ حر ا م رکھنے والے کی دعوت۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور فرمایا : ایسے دو آدمیوں کی دعوت قبول نہ کی جائے۔ اور نہ ان کا کھانا کھایا جائے جو فخر ونمود کے لیے دعوت کرتے ہیں۔ (بیہقی)
عالمگیری میں ہے کہ جس کا اکثر مال حر ا م ہے، تو اس کی دعوت قبول نہ کرے، جب تک کہ وہ یہ نہ بتادے کہ میں یہ دعوت اپنے پاکیزہ مال سے کرتا ہوں۔ اور اگر اس کا اکثر مال حلال ہے، تو اس کی دعوت قبول کرے۔ البتہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دعوت اپنے حر ا م مال سے کر رہا ہے، تو اس وقت اس کی دعوت قبول نہ کرے۔
اور ملتقط میں ہے کہ جس کا اکثر مال حلال ہو ، اس کا ہدیہ قبول کرنے اور کھانے میں کچھ حرج نہیں ، اس لیے کہ لوگوں کا مال تھوڑے حر ا م سے خالی نہیں رہتا ہے ، اس لیے اعتبار اکثر کا ہے۔لیکن خواہ مخواہ لوگوں پر شبہ کرنا اور پوچھ گچھ کرنا درست نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب کسی مسلمان بھائی کے پاس جائے تو اس کا کھانا کھائے اور اس سے نہ پوچھے (حلال کا ہے یا حر ا م کا ) اور اس کے پینے کی چیز پیے اور نہ پوچھے (کیسا ہے)۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان)